کوؤں سے میں چڑیوں کی چہک مانگ رہا ہوں
صحراؤں سے گلشن کی مہک مانگ رہا ہوں
خوش فہمیاں تو دیکھئے بُجھتے چراغ سے
برسوں سے ستاروں کی چمک مانگ رہا ہوں
نادان ہوں،خوش فہم ہوں،احمق ہوں،کیا ہوں میں؟
طوفان سے تصویرِ دھنک مانگ رہا ہوں
جمہوریت کی کوکھ سے اسلامی مملکت
اک راکھ سے شعلے کی بھڑک مانگ رہا ہوں
اُمید حسرتوں میں بھلا کیوں نہ بدلتا
آفت زدہ زمیں سے فلک مانگ رہا ہوں
گزریں کئی دہائیاں لیکن میں آج بھی
تاریک شب سے دن کی جھلک مانگ رہا ہوں
ہُدہُد الہ آبادی✍️